* سبز خوابوں کا حوصلہ جاگا *
غزل
سبز خوابوں کا حوصلہ جاگا
تیری آمد کا آسرا جاگا
اِک نئی رت مہک مہک اُٹھی
ایک موسم نیا نیا جاگا
ہے فضا میں غبار سا پیہم
جیسے صحرا میں قافلہ جاگا
صبح ہوتے ہی مسجدیں جاگیں
شام ہوتے ہی میکدہ جاگا
گنگناتی ہوئی کرن پھوٹی
دیکھ وہ بختِ خوش نما جاگا
پتھروں نے تھپک دیا رخسار
سوتے سوتے جو آئینہ جاگا
میرے جنگل کے بھیڑئے جاگے
تیرے رنگوں کا ذائقہ جاگا
اے میرے وقت کے فقییہ و امام
کیا کوئی درد آشنا جاگا
بے خبر تھا تمام شہر ندیم
تنہا تنہا سا میں رہا جاگا
****
|