سفید پرندہ
ممتا جب سے
صحرا مئں کھوئئ ہے
کشکول میں بوئئ ہے
خون میں سوئئ ہے
سفید پرندہ خون میں ڈوبا
خنجر دیوارں پر
چاند کی شیشہ کرنوں سے
شبنم قطرے پی کر
سورج جسموں کی شہلا آنکھوں میں
اساس کے موسم سی کر
ہونٹوں کے کھنڈر پر
سچ کی موت کا قصہ
حسین کے جیون کی گیتا
وفا اشکوں سے لکھ کر
برس ہءے مکت ہوا
****************