* طبیعت سے جدا فطرت سے دیوانہ سمجھت *
غزل
طبیعت سے جدا فطرت سے دیوانہ سمجھتا ہے
مجھے گزرے زمانے کا وہ اک سکہ سمجھتا ہے
مری ہر بات کو احساس کا جھرنا سمجھتا ہے
وہ مجھ کو چاہتا ہے مجھ کو جانے کیا سمجھتا ہے
شہر کی بدحواسی نے مجھے کتنا بدل ڈالا
غنیمت یہ ہے وہ اب بھی مجھے اچھا سمجھتا ہے
اترتا ہے مرا ہر نقش اُس میں ہوبہو لیکن
مرے من کی گھٹن کو کب یہ آئینہ سمجھتا ہے
اجالے ہیں تبھی تک ہم سفر بھی ساتھ ہیں میرے
اجالے ہیں تو میں ہوں یہ ہر اک سایہ سمجھتا ہے
وہ جس کے واسطے سجدے کئے صدمے سہے جاں پر
مرا بیٹا مجھے اب صرف اک رشتہ سمجھتا ہے
مرے ماضی کا وہ پنّا میں اُس کا حال و مستقبل
میں اُس کو کیا سمجھتی ہوں وہ مجھ کو کیا سمجھتا ہے
مردولا ارون
607, Bordi ka rasta
Kishan Poll Bazar
Jaipur (Rajisthan)
Mob: 9314614831
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|