* قدم اٹھا تو عجب دل گداز منطر تھا *
قدم اٹھا تو عجب دل گداز منطر تھا
میں آپ اپنے لئے راستے کا پتھر تھا
دل ایک اور ہزار آزمائشیں غم کی
دل جلا تو تھا مگر ہوا کی زد پر تھا
ہر آئینہ میری آنکھوں سے پوچھتا ہے یہ
وہ عکس کیا ہوئے آباد جن سے یہ گھر تھا
ہزار بار خود اپنے مکاں پہ دستک دی
اس احتمال میں جیسے کہ میں ہی اندر تھا
تمام عمر کی تنہائیاں سمیٹی ہیں
یہی میرے در و دیوار کا مقدر تھا
اداس راتوں میں پیہم سلگتی صبحوں میں
جو غمگسار تھا کوئی تو دیدئہ تر تھا
|