* اپنے کے پہ شور کیا،اٹھتی ہے دل سے *
اپنے کے پہ شور کیا،اٹھتی ہے دل سے ہاے کیوں
عشوہ طرازیاں سہیں، حسن کے ناز اٹھاۓ کیوں
ہم پہ نہیں ہے مہرباں، ہوتا ہے کچھ کرم کہاں
سوچتے ہیں کھڑے یہی،اس کی گلی میں آے کیوں
سب ہیں نقیب _ تیرگی ،لٹتی رہی ہے روشنی
ایسے میں آ کے راہ پر، کوئی دیا جلاۓ کیوں
جس کو وفا کا پاس ہے ، خود ہی کریگا اب رفو
دامن _تار تار وہ بزم میں لے کے جاۓ کیوں
ہم ہیں فقیر_جاں سپر، ہم کو نہیں کسی کا ڈر
"بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم،کوئی ہمیں اٹھاۓ کیوں "
جس میں ہو لطف_آگہی ، دیتا ہو صرف تازگی
تجھ کو وہ جام_ زندگی کوئی بھلا پلاے کیوں
اس کو نہیں ہے کچھ غرض، ،مرقد_-سوگوار سے
ٹوٹی ہوئ مزار پر، پھول بھی اب چڈھاۓ کیوں
مسعود جعفری : لکھنؤ
|