* سنا ہے ابر ستائش برس نہیں سکتا *
سنا ہے ابر ستائش برس نہیں سکتا
حضورؐ سرور عالم کے ہم نشینوں پر
خدا کے عرش سے جو اٹھ رہی ہیں پے در پے
بٹھا دئے گئے پہرے ان آفرینوں پر
شہید گنج نے جن کو بچا کے رکھ تھا
وہ بل بھی پڑ گئے حکام کی جبینوں پر
اگر ہم اپنے بزرگوں کا نام ادب سے لیں
تو لوٹ جاتے ہیں کیوں سانپ ان کے سینوں پر
دعائیں ہم نے انہیں دیں وہ گالیاں سمجھے
مریں تو کیا مریں ان لکھنوی حسینوں پر
کشادہ ہو گئیں سجن فرنگ کی راہیں
نظام عدل نصاریٰ کے نکتی چینوں پر
بت افراق نوازی کے اس میں پنہاں ہیں
میری نظر ہے حکومت کی آستینوں پر
وفا شعار ہمارا روشن جفا ان کی
پڑے خدائی کی خاک ان کے ان قرینوں پر
ہے شیوہ ہند میں جن کا مداخلت فی الدین
مدارا امن ہے ان احمق الزینوں پر
ہر ایک زرہ ہے جن کا یک آسمان نیا
میرے خیال کا قبضہ ہے ان زمینوں پر
|