* مشرق میں غریبوں کی نہیں کوئی رہی گ *
مشرق میں غریبوں کی نہیں کوئی رہی گور
سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہیں مغرب کے کفن چور
لکھتا ہوں فلسطیں کے شہیدوں کی کہانی
آلودہ لہو سے ہیں میری انگلیوں کے پور
یہ خون ہے وہی جس کی جھلکتی ہوئی سرخی
ہے مایۂ رنگینئی افسانۂ بلفور
ہیں تیرہ و تاریک کلیسا کی فضائیں
چھائی ہوئی ہے جس پہ گھٹا جنگ کی گھنگھور
غلطاں ہے ادھر خاک میں جسم جشتاں
ہسپانیہ کی نعش ادھر خوں میں شرابور
سن سن کے اتا ترک کی تلوار کی جھنکار
روما کو دبا اور تو برلن کی دبی کور
فسطائیوں اور نازیوں کی فتنہ گری سے
چرچل ہیں سراسیمہ تو وحشت زدہ ہیں ہور
تارا ہوئی جاتی ہیں نصاری کی پتنگیں
یارب انہیں کیوں اتنی پلائی گئی ہے ڈور
ملتا ہے کسی کو نہ یہ زاری سے نہ زر سے
انصاف ملے گا اسے حاصل ہو جسے زور
|