* کام انگریز کو دنیا سے مجھے دین سے ہ *
کام انگریز کو دنیا سے مجھے دین سے ہے
اس کے قانون کی ٹکر میرے آئین سے ہے
خون اسلام سے گلرنگ ہوا روضئہ اقدس
خبر اُڑتی ہوئی آئی یہ فلسطین سے ہے
سینئہ توحید کے بیٹے کا مشبک ہے اگر
تو وہ تثلیث کے فرزند کی سنگیں سے ہے
جس سے گلرنگ ہوا مسجدِ لاہور کا صحن
نسبت اس خون کو میری ہی شرائین سے ہے
کب دبا سکتی ہے اس نعرہ کو توپوں کہ گرج
جو بلند آج مراکش سے تو کل چین سے ہے
قادیاں مردہ ہے اور زندہ جاوید ہوں میں
عشق قرآں سے مجھے اس کو تراہین سے ہے
خوف مونجی کو نہیں آج ہمارے لٹھ کا
اس کو ڈر ہے تو پٹھانوں کی قرابیں سے ہے
ہے طبیعی یہ وہ ڈر جس سے نہین کوئی مضر
یہ وہ خطرہ ہے جو کنجشک کو شاہین سے ہے
کانگریس میں بھی ہیں کچھ مرد مگر حق ہے یہی
گرم ہنگامۂ ہند اس کی خواتین سے ہے
کیوں ہم آغوشِ اجابت نہ دُعا ہو میری
جا ملی عرش پہ جبریل کی آمین سے ہے
چمنستان معانی میں اگر ہے رونق
تو وہ میرے ہی دل افروز مضامین سے ہے
چودھویں رات کا چاند آپ ہے ساماں اپنا
مطلب اس کو نہ پرن سے ہے نہ پروین سے ہے
|