* قصور کچھ نہ تھا پھر بھی قصور وار رہ *
غزل
قصور کچھ نہ تھا پھر بھی قصور وار رہا
بغیر جرم و خطا کے بھی شرمسار رہا
جبینِ شوق بھی مائل تھی آستاں کی طرف
خیالِ یار سے دامن بھی تار تار رہا
اٹھا دیا مجھے محفل سے ہم نشینوں نے
وفا پہ اُن کی مجھے پھربھی اعتبار رہا
عجیب بات ہے ویرانیوں میں پھول کھلا
مرے نصیب میں اجڑا ہوا دیار رہا
ستم کی زد میں رہے یوں تو قافلہ والے
میں قافلے میں نہ تھا پھربھی اشک بار رہا
یہی صلہ ملا مظہر میری وفائوں کا
نظر میں عمر بھر اُن کی ذلیل و خوار رہا
ڈاکٹر) مظہر کبریا)
P.G.Dept. of Urdu, J.P.University
Chapra (Bihar)
Mob: 09199885800
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|