* وقت کی دوری کو آنکھوں میں سمٹتے دی *
غزل
وقت کی دوری کو آنکھوں میں سمٹتے دیکھا
غمزدہ ماضی کو ماضی سے لپٹتے دیکھا
خانقاہیں تو ابھی چُپ ہیں مگر میں نے وہاں
رس بھری بات میں میراث کو بٹتے دیکھا
میں نے اخلاص کی توقیر میں دیکھی جو کمی
دل میں رشتوں کی محبت کو بھی گھٹتے دیکھا
کیسے مغلوب ہو شمشیر ، یہ سوچا میں نے
دستِ قاتل سے ہر اک سر کو جو کٹتے دیکھا
وضع داری سے ہوئی جب بھی یہ دنیا خالی
اچھے اچھوں کو اصولوں سے بھی ہٹتے دیکھا
اُس کے وعدوں پہ بھروسہ نہیں کرنا سالمؔ
میں نے اکثر اُسے باتوں سے پلٹتے دیکھا
محمد سالم
Kashana-e-Akhtar, Mah: Mahdauli
Darbhanga- 846006 (Bihar)
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|