* مہر کی تجھ سے توقع تھی، ستمگر نکلا *
غزل
٭……میر تقی میر
مہر کی تجھ سے توقع تھی، ستمگر نکلا
موم سمجھے تھے تِرے دل کو سو پتھر نکلا
داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بیتاب
کس کی تسکیں کے لئے گھر سے تو باہر نکلا
جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کر نکلا
دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا
اشکِ تر ، قطرہ خوں، لختِ جگر، پارۂ دل
ایک سے ایک عدو آنکھ سے بہتر نکلا
ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میرؔ
پرترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا
|