* بارہا گورِ دل جھکا لایا *
غزل
٭……میر تقی میر
بارہا گورِ دل جھکا لایا
اب کے شرطِ وفا بجا لایا
قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل
سارے عالم میں میں دکھا لایا
دل کہ یک قطرہ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بلا لایا
سب پہ جس بار نے گِرانی کی
اس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
دل مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا
اب تو جاتے ہیں بتکدے اے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
|