* آجائیں، ہم نظر جو کوئی دَم بہت ہے ی *
غزل
٭……میر تقی میرؔ
آجائیں، ہم نظر جو کوئی دَم بہت ہے یاں
مہلت بسانِ برق و شرر کم بہت ہے یاں
یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں
یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں
ہم رہروانِ راہِ فنا دیر رہ چکے
وقفہ بسانِ صبح کوئی دم بہت ہے یاں
حاصل ہے کیا سوائے ترائی کے دہر میں
اُٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں
اس بتکدے میں معنی کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے صورتِ آدم بہت ہے یاں
اعجاز عیسوی سے نہیں بحث عشق میں
تیری ہی بات جان مجسم بہت ہے یاں
میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمہیں
تم شاد زندگانی کرو غم بہت ہے یاں
شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میرؔ
احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں
|