* غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا *
غزل
٭……میر تقی میر
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا
جامۂ احرام زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نا محرم رہا
زلفیں کھولے تو تو ٹک آیا نظر
عمر بھر یاں کام دل برہم رہا
اُس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے
اپنے حق میں آب ِ حیواں سم رہا
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
صبح پیری شام ہونے آئی میر
تو نہ جیتا، یہاں بہت دن کم رہا
**** |