میر کی غزل
بھلا ہوگا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہوگا
مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہوگا
تفحض فائدہ ناصح تدارک تجھ سے کیا ہوگا
وہی پاوے گا میرا درد دل جس کا لگا ہوگا
کسو کو شوق یارب بیش اس سے اور کیا ہوگا
قلم ہاتھ آگئی ہوگی تو سو سو خط لکھا ہوگا
معیشت ہم فقیروں کی سی اخوانِ زماں سے کر
کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہوگا
خیال اُس بے وفا کا ہم نشیں اتنا نہیں اچھا
گماں رکھتے تھے ہم بھی یہ کہ ہم سا آشنا ہوگا
قیامت کرکے اب تعبیر جس کوکرتی ہے خلقت
وہ اُس کوچے میں اک آشوب سا شاید ہوا ہوگا
نہ ہو کیوں غیرتِ گلزار وہ کوچہ خدا جانے
لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہوگا
بہت ہم سائے اس گلشن کے زنجیری رہا ہوں میں
کبھو تم نے بھی میرا شور نالوں کا سنا ہوگا
نہیں جُز عرش جاگہ راہ میں لینے کو دم اُس کے
قفس سے تن کے مرغِ روح میرا جب رہا ہوگا
کہیں ہیں میرؔ کو مارا گیا شب اُس کے کُوچے میں
کہیں وحشت میں شاید بیٹھے بیٹھے اُٹھ گیا ہوگا
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸