غزل
اَدب و احترام ہر سُو ہونا چاہیے
ذکرِ یار سے پہلے وضو ہونا چاہیے
رِندوں کے دل پر بھی اَثر ہو واعظ
ایسا اندازِ گفتگو ہونا چاہیے
یہی آرزو یہی حسرت یہی ہے تمنا
میرے دل میں فقط تُو ہونا چاہیے
جو سیاہ کار کو دکھائے صراطِ مُستقیم
کوئی ایسا بھی جگنو ہونا چاہیے
اگر کردار سے چاہتے ہو شناسائی
پھر آئینے کے رُو برُو ہونا چاہیے
جب بھی چاہوں کر لوں تیرا دیدار
میری نظر میں جادُو ہونا چاہیے
جو آنکھوں سے بھی ٹپکنا جانتا ہو
رگوں میں ایسا لہو ہونا چاہیے
چُھونا بھی چاہو تو نہ چُھو سکو امر
محبوب مانندِ خوشبو ہونا چاہیے
میاں امر