غزل
سرِ شام پرندوں کو لوٹ آنا چاہیے تھا
آندھیوں سے نشیمن بچانا چاہیے تھا
اگر تمہیں تھی لعل و گوہر کی جُستجو
پھر ہم فقیروں کو بھی آزمانا چاہیے تھا
اب ظلم سہنے کے سِوا چارہ نہیں کوئی
پہلے ہی حق سچ پہ ڈٹ جانا چاہیے تھا
غیروں کی ہی باتوں پہ کر بیٹھے یقیں
کچھ اپنوں سے سُننا کچھ سُنانا چاہیے تھا
تب جا کے بنتی بگڑی ہوئی بات دوستو
پہلے روٹھا ہُوا یار منانا چاہیے تھا
طوفاں کی دوستی کا تب پتہ چلتا امر
ساحل پہ اک گھروندا بنانا چاہیے تھا
میاں امر