غزل
٭………بہادر شاہ ظفر
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے، تِری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بیقراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکسِ رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہِ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آوازِ سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
نگہِ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل
وہ ترے حال سے غافل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہر بار
خُو تری حُور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی
******