* درد منّت کش دوا نہ ہو *
غزل
٭……اسد اللہ خاں غالب
درد منّت کش دوا نہ ہو
میں نہ اچّھا ہوا بُرا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو؟
اک تماشا ہوا گلا نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
زخم گر دب گیا لہو نہ تھما
کام گر رک گیا روا نہ ہوا
رہزنی ہے کہ دلستانی ہے
لے کے دل دلستاں روا نہ ہوا
کچھ تو کہئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا
|