* آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک *
غزل
٭……اسد اللہ خاں غالب
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں اک عنایت کی نظر ہونے تک
یک نظر بیش نہیں فرصتِ ہستی غافل
گرمیٔ بزم ہے ایک رقصِ شرر ہونے تک
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگِ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
|