* کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغا ں ک& *
غزل
٭……اسد اللہ خاں غالب
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغا ں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ’’ ہم سے سرگراں کیوں ہو؟‘‘
کیا غم خوار نے رُسوا، لگے آگ اس محبت کو!
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو؟
وفا کیسی؟ کہاں کا عشق؟ جب سر پھوڑنا ٹھہرا
توپھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو؟
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم!
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو؟
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے؟
ہوئے ہو تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عد و کے ہو لئے جب تم تو میرا امتحاں کیوںہو؟
غلط ہے جذب دل کا شکوہ، دیکھو جرم کس کا ہے
نہ کھینچو گر تم اپنے کو کشاکش درمیاں کیوں ہو؟
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالبؔ
ترے بے مہر کہنے سے،وہ تجھ پہ مہر باں کیو ں؟
|