* ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پ¬ *
غزل
٭……اسد اللہ خاں غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مِرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اس کو خطِ توہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور کان پر دھر کر قلم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
کہاں میخانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
|