* ابن مریم ہوا کرے کوئی *
غزل
٭……اسد اللہ خاں غالب
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
مشرع و آئین پر مدرسہ سہی ایسے قاتل
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور کرے کوئی
بَک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
نہ سنو گر بُرا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گِلا کرے کوئی
|