* ملے غم سے اپنے فرصت تو سناؤں وہ فسا *
ملے غم سے اپنے فرصت تو سناؤں وہ فسانہ
کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے عشرتِ شبانہ
یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرّت
یہی زندگی حقیقت یہی زندگی فسانہ
کبھی درد کی تمنّا کبھی کوششِ مداوا
کبھی بجلیوں کی خواہش کبھی فکرِ آشیانہ
میرے قہقہوں کے زد پر کبھی گردشیں جہاں کی
میری آنسوؤں کی رو میں کبھی تلخئی زمانہ
ابھی میں ہوں تجھ سے نالاں کبھی مجھ سے تو پریشاں
کبھی میں تیرا ہدف ہوں کبھی تو میرا نشانہ
جسے پا سکا نہ زاہد جسے چھو سکا نہ صوفی
وہی تیر چھیڑتا ہے میرا سوزِ شاعرانہ
|