* آج تک یاد ہے مجھکو وہ مچلتی ہوئی شا *
آج تک یاد ہے مجھکو وہ مچلتی ہوئی شام
وہ تیرا قرب وہ تنہائی وہ نظرو ں کا پیام
تیری مستی بھری آنکھوں کے چھلکتے ہوئے جام
دعوت مے تیری جانب سے ملی میرے نام
تیری بھر پور جوانی تیرا مدہوش شباب
تشنہ کامی کو تیرے رس بھرے ہونٹوں کی شراب
حسن نایاب بھی تھا وقت بھی تھا ہوش بھی تھا
مجھ میں جذبات بھی تھے اور جواں جوش بھی تھا
میں مگر سوچ کی دہلیز پہ یوں بیٹھا رہا
غرق خوشبو میں تیری میٹھی صدا سنتا ر ہا
عظمتِ فکر تھی میری کہ محبت کا ادب
مجھ کو معلوم نہیں یا تھا وہ کچھ اور سبب
اور پھر وہ تیری قربت کی گھڑی بیت گئی
میں تو محروم رہا عظمت دل جیت گئی
آج تک یاد ہے مجھکو وہ سسکتی ہوئی شام
وہ تیرا قرب وہ تنہائی وہ نظروں کا پیام
|