غزل
محسن نقوی
وہ جو صُبحوں سی جبیں رکھتا ہے
شام آنکھوں میں کہیں رکھتا ہے
جو اُگاتا ہے پہاڑوں میں غُرور
زلزلے زیرِ زمیں رکھتا ہے
اُس پہ ہیرے نہیں جگنو چھِڑکو
وہ سِتاروں پہ یقیں رکھتا ہے
دُھوپ چھاؤں سی طبیعت اُس کی
دِل میں ہاں لب پہ نہیں رکھتا ہے
سنگ ریزوں سے بہلنے والا
کتنے اَشکوں کے نگیں رکھتا ہے
رونقِ شہر، میرے دل پہ نہ جا
یہ مکاں اور مکیں رکھتا ہے
اُس کے ملبوسِ دریدہ کو نہ دیکھ
وہ خدوخال حسِیں رکھتا ہے
ہےفلک بخت قلندر محسن
ساتھ کچھ خاک نشیں رکھتا ہے
محسن نقوی