* کیسی قیامت سہی تھی میں نے *
کیسی قیامت سہی تھی میں نے
کہ دوری تجھ سے چنی تھی میں نے
لکھے تھے آنسو جگہ جگہ پہ
کتابِ چاہت پڑھی تھی میں نے
بکھر چکی ہے ہوا کی صورت
وہ بات جو خود سے کہی تھی میں نے
وہ تیرے چہرے پہ نظمِ الفت
جگر کے خوں سے لکھی تھی میں نے
وہ کھلکھلا کے ہنسی تھی شاید
اک جلترنگ سی سنی تھی میں نے
|