* مرے مسیحا سے جا کے کہہ دو *
مرے مسیحا سے جا کے کہہ دو
کہ دم بلب ہے قرارِ ہستی
کہ جاںگسل انتظار تیرا
کہو کہ مہمان رہ گیا ہے
بس ایک پل کا بیمار تیرا ، مرے مسیحا
ترے سفر میں ہوئیں جو روشن
وہ صبحیں راتوں میں ڈھل گئیں ہیں
کہ تیرے خوابوں کی حدتوں سے
کسی کی آنکھیں ہی جل گئی ہیں
مرے مسیحا سے جا کے کہہ دو
کہ درد اتنا سوا ہوا ہے
یہ نبض جیسے تھمی ہوئی ہے
یہ وقت جیسے رکا ہوا ہے، مرے مسیحا
سہارے جس کے کٹی ہے ہر شب
وہ آس سینے میں گھٹ رہی ہے
مرے مسیحا ! خبر بھی لو اب
متاعِ جاں ہے کہ لٹ رہی ہے
مرے مسیحا
|