* جلتا ہوں ہجرِ شاہد و يادِ شراب ميں *
جلتا ہوں ہجرِ شاہد و يادِ شراب ميں
شوقِ ثواب نے مجھے ڈالا عذاب ميں
کہتے ہيں تم کو ہوش نہيں اضطراب ميں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب ميں
رہتے ہيں جمع کوچۂ جاناں ميں خاص و عام
آباد ايک گھر ہے جہانِ خراب ميں
بدنام ميرے گريۂ رسوا سے ہو چکے
اب عذر کيا رہا نگۂ بے حجاب ميں
ناکاميوں سے کام رہا عمر بھر ہميں
پری ميں ياس ہے جو ہوس تھی شباب ميں
دونوں کا ايک حال ہے يہ مدعا ہو کاش
وہی خط اس نے بھيج ديا کيوں جواب ميں
تقدير بھی بری مری، تدبير بھی بری
بگڑے وہ پرسشِ سببِ اجتناب ميں
کيا جلوے ياد آئے کہ اپنی خبر نہيں
بے بادہ مست ہوں ميں شب ماہتاب میں
پيہم سجود پائے صنم پر دمِ وداع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب ميں
|