* کھا گیا ہے غمِ بتاں افسوس *
کھا گیا ہے غمِ بتاں افسوس
گُھل گئی غم کے مارے جاں افسوس
میرے مرنے سے بھی وہ خوش نہ ہوا
جی گیا یوں ہی رائیگاں افسوس
گلِ داغِ جنوں کھِلے بھی نہ تھے
آ گئی باغ میں خزاں افسوس
موت بھی ہو گئی ہے پردہ نشیں
راز رہتا نہیں نہاں افسوس
تھا عجب کوئی آدمی مومن
مر گیا کیا ہی نوجواں افسوس
|