* دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ *
غزل
٭……مومن خاں مومنؔ
دل بستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
پالا پڑا ہے ہم کو خدا کس بلا کے ساتھ
یاد ہوائے یار نے کیا کیا نہ گُل کھلائے
آئی چمن سے نکہتِ گل جب ہوا کے ساتھ
مانگا کریں گے اب سے دعاء ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعاء کے ساتھ
ہے کس کا انتظار کہ خوابِ عدم سے بھی
ہر بار چونک پڑتے ہیں آوازِ پا کے ساتھ
یارب وصال یار میں کیوں کر ہو زندگی
نکلی ہی جان جاتی ہے ہر ہر ادا کے ساتھ
اللہ رے سوزِ آتش غم بعدِ مرگ بھی
اٹھتے ہی میری خاک سے شعلے ہوا کے ساتھ
سو زندگی نثار کروں ایسی موت پر
یوں روئے زار زار تو اہلِ عزا کے ساتھ
دستِ جنوں نے میرا گریباں سمجھ لیا
اُلجھا ہے اُن سے شوخ کے بند قبا کے ساتھ
آتے ہی تیرے چل دئے سب ورنہ یاس کا
کیسا ہجوم تھا دلِ حسرت فزا کے ساتھ
مومنؔ وہی غزل پڑھو شب جس سے بزم میں
آتی تھی لب پہ جاں زہ و حبّدا کے ساتھ
|