* دفن جب خاک میں ہم سوخٔتہ ساما ہوں گ *
غزل
٭……مومن خاں مومنؔ
دفن جب خاک میں ہم سوخٔتہ ساما ہوں گے
فلسِ ماہی کے گل شمع شبستاں ہوں گے
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
تابِ نظارہ نہیں آئینہ دیکھتے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے
کرکے زحمی مجھے نادم ہوں یہ ممکن ہی نہیں
گر وہ ہوں گے بھی تو بے وقت پشیماں ہوں گے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیماں کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے
ہم نکالیں گے سُن اے موجِ ہوا بل تیرا
اُس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے
منتِ حضرتِ عیسیٰ نہ اٹھائیں گے ہم
زندگی کے لئے شرمندۂ احساں ہوں گے
داغ نکلیں گے تربت سے مری جوں لالہ
یہ وہ اخگر نہیں جو خاک میں پنہاں ہوں گے
چاک پردہ سے یہ غمزے ہیں تو اے پردہ نشیں
ایک میں کیا کہ سبھی چاک گریباں ہوں گے
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پائوں وہی خارِ مغیلا ہوں گے
سنگ اور ہاتھ وہی سرو داغ جنوں
وہی ہم ہوں گے وہی دشت و بیاباں ہوں گے
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
**** |