* وہ جوہم میں تم میں قرار تھا تمہیں ی *
غزل
٭……مومن خاں مومنؔ
وہ جوہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ یعنی نباہِ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر اک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتا نے کو دم بدم
گلۂ ملامتِ اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی بات ایسی گر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
***** |