* محبت کا، نہ وفائوں کا سوچتے ہیں *
غزل
محبت کا، نہ وفائوں کا سوچتے ہیں
چلو اب کی بار، جفائوں کا سوچتے ہیں
بدلتے ہیں رستے، بھولتے ہیں منزلیں
تم شہر کے ہوجائو، ہم گائوں کا سوچتے ہیں
زمین پہ رہ کے تو کوئی کمال نہ ہوسکا
اب کہ یوں ہے کہ خلائوں کا سوچتے ہیں
لفظ یاد نہیں رہتے، لہجے بھول جاتے ہیں
سوچیں تو فقط تیری ادائوں کا سوچتے ہیں
ہماری مثل تو اُڑتے پرندوں کی سی ہے مدثر
آشیانے میں بچے اور گھٹائوں کا سوچتے ہیں
****** |