* محبت جب سے کرنے لگا ہوں *
غزل
محبت جب سے کرنے لگا ہوں
تنہائیوں کے خوف سے ڈرنے لگا ہوں
چمک جاتی ہیں آنکھیں سوتے میں
اِن میں اَشک جو بھرنے لگا ہوں
اُسی کو سوچتے رہنا شام و سحر
کام یہ عبادتاً کرنے لگا ہوں
کبھی تھا شوخ سا اِک پھول میں بھی
مگر اِس خزاں میں تو بکھرنے لگا ہوں
نہ مل سکا تمام عمر ہم سے وہ
اب تو بُلائو کہ مرنے لگا ہوں
جیسے ہو بیمار کوئی قریبُ وصال
اِس طرح آہیں بھرنے لگا ہوں
میں مدثر بد ذوق سا آدمی اور یہ شاعری
یہ کیسا کام اب میں کرنے لگا ہوں
****** |