یہ ماہ اور سال جو مری عمر پر لگے ہیں
پلٹ کے دیکھوں تو اب بہت مختصر لگے ہیں
شجر بنایا عجیب اک شاعری سے میں نے
پھراس کی شاخیں کہ جن پہ لعل وگہرلگے ہیں
سگِ وفادار اور درویش اس کا مالک
ہمیں تو اس شہر میں یہی معتبر لگے ہیں
بھرم فقیری کا آخر اظہار کھُل گیا ہے
ترے مکاں میں سنا ہے دیوار و در لگے ہیں
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸