* لغزشوں کو شباب دیتی ہوں *
لغزشوں کو شباب دیتی ہوں
پھر بہاروں کو خواب دیتی ہوں
خود کو یوں بھی عذاب دیتی ہوں
آرزو کا سراب دیتی ہوں
وقت رفتہ کے ہاتھ میں اکثر
زندگی کی کتاب دیتی ہوں
سی کے لب خامشی کے دھاگوں سے
حسرتوں کو عذاب دیتی ہوں
جی رہی ہوں بس ایک لمحے میں
اک صدی کا حساب دیتی ہوں
ظلم سہ کر بھی مطمین ہوں میں
زندگی کو جواب دیتی ہوں
بال و پر کی ہر ایک پھڑکن کو
حوصلہ؟ جی جناب، دیتی ہوں
یادگار شکست دل بھی تو ہو
"آج تم کو گلاب دیتی ہوں"
ہر ارادے کی دھار کو پھر سے
آج 'ممتاز' آب دیتی ہوں
**************** |