|
* تڑپ کو ہمنوا روح و بطن کو کربلا کر *
تڑپ کو ہمنوا روح و بطن کو کربلا کر لو
ذرا کچھ دیر کو ماضی سے بھی کچھ سلسلہ کر لو
سیاہی جو نگل جاے سراسر روشنی کو بھی
تو پھر حق ہے کہاں باطل ہے کیا خود فیصلہ کر لو
عبادت نامکمّل ہے , ادھورا ہے ہر اک سجدہ
اساس ذہن و دل کو بھی نہ جب تک مبتلا کر لو
تھکن کو پاؤں کی بیڑی بنا لینے سے کیا ہوگا
سفر آسان ہو جائگا , تھوڑا حوصلہ کر لو
یہی تنہائی تم کو لے کے پھر جاےگی منزل تک
جنوں کو راہبر کر لو , خودی کو ہمنوا کر لو
بلندی بھی جھکیگی حوصلے کے سامنے بیشک
جو خو پرواز کو , کاوش کو اپنا مشغلہ کر لو
سلگ اٹھے ہر اک احساس , ہر اک زخم کھل اٹھے
اگر اپنی تمناؤں سے بھی کچھ رابطہ کر لو
زمانے بھر سے نالاں ہو , شکایت ہے خدا سے بھی
کبھی 'ممتاز ' اپنے آپ سے بھی تو گلہ کر لو
****************** |
|