* گر کر رہِ وفا میں جو انساں سنبھل گی *
غزل
گر کر رہِ وفا میں جو انساں سنبھل گیا
سچ پوچھئے تو اُس کا مقدر بدل گیا
اُن کی نظر کے پھول جو ہم پر برس گئے
دل سے غمِ حیات کا کانٹا نکل گیا
دورِ خزاں میں جس سے تھی وابستہ زندگی
عہدِ بہار میں وہ نشیمن بھی جل گیا
کافی دنوں کے بعد ملی اُن سے جب نظر
مارے خوشی کے دوستو یہ دل مچل گیا
میں اِس زمیں پہ جب بھی ہوا خود سے بے خبر
یہ آسماں کوئی نہ کوئی چال چل گیا
دی ہیں دعائیں اور دیئے نیک مشورے
اُن کے حضور جب بھی میں لے کر غزل گیا
مضطرؔ مری نگاہوں میں جلوے بکھر گئے
اٹھی اُدھر نقاب اِدھر دل مچل گیا
مرتضیٰ حسین مضطر
29/33, Jheel Road, Kashipur
Kolkata-700002
Mob: 9339805363 / 9007579268
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|