* جسم اپنا ہے کوئی اور نہ سایہ اپنا *
جسم اپنا ہے کوئی اور نہ سایہ اپنا
جانے اس زیست میں ہے کون سا رشتہ اپنا
تو نے کس موڑ پہ چھوڑا تھا مجھے عمرِ رواں
تک رہا ہوں کئی صدیوں سے میں رستہ اپنا
ہم رہے بھی تو بدلتے ہوئے موسم کی طرح
تیری آنکھوں میں کوئی عکس نہ ٹھہرا اپنا
اک تیرا رنگ تھا بہر رنگ جو شاداب رہا
اس شجر نے نہ گرایا کوئی پتا اپنا
کتنے اصنام تراشے ہیں تیری صورت کے
جھانک کر دیکھ زرا مجھ سے سراپا اپنا
|