اور سب تم سے ورے بیٹھے ہیں
ایک ہم ہیں کہ پرے بیٹھے ہیں
پھٹ چکا جب سے گریباں تب سے
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
شیشۂ مے کی طرح اے ساقی
چھیڑ مت ہم کو بھرے بیٹھے ہیں
قتل کا کس کے ارادہ ہے جو آپ
ہاتھ قبضے پہ دھرے بیٹھے ہیں
مصحفیؔ یار کے گھر کے آگے
ہم سے کتنے نگھرے بیٹھے ہیں
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸