* درد جو ان کے در سے پائے ہیں *
غزل
درد جو ان کے در سے پائے ہیں
اپنے سینے سے وہ لگائے ہیں
اشک شبنم نے جب بہائے ہیں
تب کہیں پھول مسکرائے ہیں
دل میں پینے کی آرزو لے کر
ساقیا در پہ تیرے آئے ہیں
تم جو آؤ تو خود ہی چھٹ جائیں
دل پہ بادل جو غم کے چھائے ہیں
ہاے! دو دن کی زندگانی میں
ہم نے لاکھوں ستم اٹھائے ہیں
کیا کرے گا کوئی علاج اس کا
درد جو دل میں ہم چھپائے ہیں
رات ڈھلنے دو پھر چلے جانا
بعد مدت کے آپ آئے ہیں
کیا کرے اُن پہ اعتبار کوئی
اپنا ایماں جو بیچ کھائے ہیں
اب تو برتاو ان کا ایسا ہے
جیسے اپنے نہیں پراے ہیں
**** |