* زخم جگر ہر اک کو دکھانا فضول ہے *
زخم جگر ہر اک کو دکھانا فضول ہے
یعنی تماشا خود کو بنانا فضول ہے
جب اپنی خامیاں ہیں عیاں شمس کی طرح
انگشت دوسروں پہ اٹھانا فضول ہے
تاریکیِ جہاں پہ جو غالب نہ آسکے
ایسا کویی چراغ جلانا فضول ہے
چہرے سے آشکار جو ہوجائے کہے
وہ راز پھر کسی سے چھپانا فضول ہے
بیمارِ غم سے جب کہ تعلق نہیں کوئی
پھر پُرسشِ مریض کو آنا فضول ہے
کھولے گا لب نہ کوئی تسلی کے واسطے
رودادِ غم کسی کو سنانا فضول ہے
اپنے نصیب کا جو ہے رسوائیوں میں ہاتھ
الزام دوسروں پہ لگانا فضول ہے
ساقیِ مَے خلوص سے لبریز جو نہ ہو
رندوں کو ایسا جام پلانا فضول ہے
انسانیت کی جن کو ہوا تک نہیں لگی
اے دوست اُن سے ربط بڑھانا فضول ہے
**** |