* شمعِ وفا دلوں میں جلائیں گے دوستو! *
شمعِ وفا دلوں میں جلائیں گے دوستو!
کچھ اس ادا سے جشن منائیں گے دوستو!
دیوار نفرتوں کی گرائیں گے دوستو!
جَوروجفا جہاں سے مٹائیں گے دوستو!
دورِ خزاں میں پھول کھلا ئیں گے دوستو!
جشنِ بہار یوں بھی منائیں گے دوستو!
وہ اپنی دشمنی کو رکھیں اپنے پاس ہی
ہم دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے دوستو!
مِل جائے جس سے خاک میں اپنا وقار ہی
ایسا کوئی قدم نہ اُٹھائیں گے دوستو!
یہ حوصلے ہمارے ہیں دے زندگی جو ساتھ
گلشن کی ہر روش کو سجا ئیں گے دوستو!
ہم اپنی زندگی کو سنواریں گے آپ ہی
بہکے ہوؤں کو راہ پہ لائیں گے دوستو!
ہوگا نہ کوئی فرق امیر و غریب میں
اک ایسا انقلاب بھی لائیں گے دوستو!
سکھلا دیا ہے ایسا یہ ماحول نے سبق
اب ہم کبھی فریب نہ کھائیں گے دوستو!
**** |