* نہ پیرِ مَے کدہ اپنا نہ شیخِ حرم اپ *
نہ پیرِ مَے کدہ اپنا نہ شیخِ حرم اپنا
ہے لے دے کے جہاں میں ایک تو ہی اے صنم اپنا
رہِ حق و صداقت پر رہا جب تک قدم اپنا
جہاں چاہا وہاں لہرادیا بڑھ کر عَلم اپنا
جہاں پر نسل انساں کا پہنچنا کارِ مشکل تھا
وہاں پر چھوڑ آئے جاکے ہم نقشِ قدم اپنا
نہ میری فکر کیجے ظلم سہنے کا مَیں عادی ہوں
تم اپنے پاس ہی رہنے دو فرسودہ کرم اپنا
مَیں پھر کہتا ہوں یہ تم کو کہ مجھ کو بے وفا کہہ کر
سرِ محفل نہ کھلواؤ عبث مجھ سے بھرم اپنا
ملیں غم کے عوض خوشیاں اگر سارے زمانے کی
یقیں مانو نہ دوں پھر بھی کسی انساں کو غم اپنا
ستم ہے دوستو! وہ غیر نکلا وقت پڑنے پر
جسے سمجھے ہوئے بیٹھے تھے اپنے دل میں ہم اپنا
اگر مَیں روکنا چاہوں بھی تو رکتا نہیں ہرگز
روانی میں جب آتا ہے مُشاہدؔ یوں قلم اپنا
***** |