غزل
از: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
نہ لب پہ ہلکا سا ہے تبسم نہ دل کو حاصل کوئی خوشی ہے
گھرا ہوا ہوں غم و الم میں یہ زندگی کوئی زندگی ہے
ہے یوں تو کہنے کو آدمی سے بھری ہوئی بزمِ دہر لیکن
ہو آدمیت کا جس میں جوہر حقیقتا وہ ہی آدمی ہے
ہے بات تو جب ہر ایک سجدہ ادا ہو واعظ خلوصِ دل سے
نہ ہوگی مقبول کوئی صورت کہ جو دکھاوے کی بندگی ہے
جسے بھی دیکھو ہے مضطرب وہ جسے بھی دیکھو ہے وہ پریشاں
اُداس چہرہ ہے خشک ہے لب نگاہ میں جیسے بے بسی ہے
اے ساقیِ مَے کدہ اِدھر بھی بڑھادے اک جام ہو جو ممکن
ہمارا ہی ظرف ہے مکمل ہماری فطرت ہی مَے کشی ہے
عبث ہے اب انتظار ان کا سحر کے آثار ہیں نمایاں
نہ اب ستا رے ہیں آسماں پر نہ اب چراغوں میں روشنی ہے
غریب ہو یا ہو کہ ہو تونگر جو ان ہو یا ضعیف کوئی
ذرا بتاؤ تو مجھ کو یارو! کسی کے چہرے پہ زندگی ہے
******************