* آج دانستہ دھوکا میں پھر کھا گیا *
غزل
آج دانستہ دھوکا میں پھر کھا گیا
طائر دل مرا دام میں آگیا
ایسے حسن مجسم کا شیدا ہوں میں
چاند بھی دیکھ کر جس کو شرما گیا
دیکھ کر آج دنیا کو خنجر بکف
ایک میں ہی تھا جو سامنے آگیا
ہوش آیا تو احساس مجھ کو ہوا
جوش وحشت میں پھر ان سے ٹکرا گیا
دیکھتے ہیں انھیں بزم میں جلوہ گر
بے قراروں کے دل کو قرار آگیا
در بدر مثل دیوانہ پھرنے لگا
دل لگانے کا گویا صلہ پاگیا
پھول تو پھول کانٹے بھی ہنسنے لگے
جب چمن میں وہ جان بہار آگیا
**** |