* نقشِ وفا کو اور ابھاریں گے دوستو! *
نقشِ وفا کو اور ابھاریں گے دوستو!
یوں زندگی کا قرض اتا ریں گے دوستو!
مانا کہ آج لوگوں کے دل ہیں بجھے ہوۓ
ہم بڑھ کے زندگی کو پکا ریں گے دوستو!
جن کو دبادیے ہیں زمانے کے سنگ دل
دے کے سہارا ان کو ابھاریں گے دوستو!
آنے تو دو نظامِ چمن اپنے ہاتھ میں
صحنِ چمن کو اور نکھاریں گے دوستو!
اُلجھی ہوییٔ ہے گیسوے گیتی جو اِن دنوں
ہاتھوں سے اس کو اپنے سنوا ریں گے دوستو!
چھوڑیں گے ہم نہ دامنِ انصاف ہاتھ سے
حق دار کا نہ حق کبھی ماریں گے دوستو!
انگلی اٹھا سکے نہ ہماری طرف کوییٔ
یوں زندگی جہاں میں گزاریں گے دوستو!
مقصد میں اپنے ہوں بہ ہر حال کامراں
ہمّت کو مشکلوں میں نہ ہاریں گے دوستو!
جو لوگ اقتدار کے نشّے میں چور ہیں
نشّہ ہم ان کا بڑھ کے اتاریں گے دوستو!
**** |