* مذہب و ملت کو آخر کیا ہوا *
کہمن
مشتاق شبنم
بنیاد
منظر:
مذہب و ملت کو آخر کیا ہوا
ہو رہا ہے ہر طرف اِک قتل عام
مسجدو ں میں چل رہی ہیں گولیاں
بہہ رہا ہے خونِ ناحق صبح و شام
ہیں فروعی مسئلوں کے سب اسیر
وہ مؤذّن ہوں کہ مسجد کے امام
کاش تو اللہ کے بندے یہ سوچ
کیا یہی ہے اسوۂ خیر الانام
کہمن:
ہر فروعی مسئلے پر کشت و خوں
ہے ہتک اسلام کے پیغام کی
اے مسلمانو! بتائو تم ذرا
کیا یہی بنیاد ہے اسلام کی
٭٭٭
|