مجھے آپ جو بھی سزا دیجئے
خطا کیا ہے پہلے بتا دیجئے
بڑا زعم ہے حسن پر چاند کو
نقاب آپ رخ سے اٹھا دیجئے
مری ذات قبضے میں ہے آپ کے
بنا دیجئے یا مٹا دیجئے
عبادت میں شامل ہے یہ بات بھی
جو روتے ہیں اُن کو ہنسا دیجئے
کسی پر اگر آپ احساں کریں
تو احسان کرکے بھلا دیجئے
اندھیرا ہے نفرت کا چھایا ہوا
چراغِ محبت جلا دیجئے
مری روح کی پیاس بڑھنے لگی
مجھے جامِ عرفاں پلا دیجئے
پرانے جو تھے زخم سب بھرچکے
کوئی زخم دل کو نیا دیجئے
حضور! آپ اگر بانٹتے ہیں دعا
تو مشتاقؔ کو بھی دعا دیجئے
*******************